ہمارے اندر کا احساسِ کمتری تب تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی قیمت نہ پہچان لیں۔ اکیلے بیٹھ کر سوچیں کہ آپ کے اندر کیا کیا صلاحیت اس کی ذات نے رکھی ہے۔ ان صلاحیتوں کا ادراک کریں اور خود کو پہچان لیں۔ جب آپ خود کو اچھی طرح پہچان لیتے ہیں تو آپ کی سوچ میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس کے اندر پایا جاتا ہے۔ اپنی قیمت کو پہچانیں۔ اپنی کمزوریوں پہ غور کریں کہ آپ کی شخصیت میں کیا کیا کمزوریاں ہیں اور عزم کر لیں کہ آپ نے اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنانا ہے، اپنا مطیع بنانا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم اپنی کمزوریوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ ہمیں اصل اس غلامی سے نجات چاہئے۔ آپ خود کو احساس دلائیں کہ آپ ایک ہی ہیں۔ اللّٰہ نے آپ کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ اپنے مقصد کا تعین کریں۔ جب آپ اپنے مقاصد اور اہداف کا تعین کر لیتے ہیں تو آپ کی شخصیت میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے
(زاہرا جعفری)
”رشتے کمزور پڑنے لگ جائیں تو کچھ خاموشی اختیار کر لینی چاہئیے۔ کوئی اپنا چھوٹنے لگے تو خاموشی اختیار کر لینی چاہئیے۔ کچھ دیر کے لئے ہی سہی۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد سب درست لگنے لگتا ہے بس دو قدم پیچھے ہٹانے پڑتے ہیں۔ رشتے زندگی بھر قائم و دائم رہتے ہیں۔“
"سید مسرور علی زیدی"
جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو زیادہ دیر اس سے دور نہیں رہ سکتا۔
اور اس صورت میں تو بالکل بھی نہیں جب اسے قطع تعلق کا فیصلہ خود کرنا پڑے۔
ہاں اگر جس سے آپ محبت کرتے وہ چیز خود دور ہو جائے تو صبر آ ہی جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔
مگر جب دوری کا فیصلہ آپ خود کریں تو اس فیصلے پر قائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
(زویا ارسل)
کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ہماری سوچ ہوتی ہے جو کسی بھی چیز کو ہمارے لئے مشکل بناتی ہے۔
جب ہم یہ سوچ لیں کہ زندگی میں کچھ بھی مشکل اور غیر متوقع نہیں تو بہت سے جذباتی دھچکوں سے بچ سکتے ہیں۔ اور بہت سی حقیقتوں کو بہت آسانی سے تسلیم کر سکتے ہیں۔
(زاہرا جعفری)
جو مزہ طلب دنیا سے بے نیازی میں ہے ، وہ کسی بھی چیز میں نہیں۔
خواہشات کا بوجھ دل کو بے حد و بے انتہا بھاری کر دیتا ہے۔
پھر انسان نہ کچھ سوچنے کے قابل رہتا ہے ، نہ کچھ کرنے کے قابل رہتا ہے۔
نہ عبادت میں لطف آتا ہے
یہ بھاری پن کہیں کا نہیں چھوڑتا۔۔۔
مگر عافیت ، خود کو خواہشات کی زنجیروں سے آزاد کرنے پر ہی ملتی ہے۔
دنیا کی طلب سے بے نیازی پر ہی دل ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔
پھر سبھی کچھ نظر آتا ہے۔ سبھی کچھ محسوس ہوتا ہے۔
معرفت الٰھی کی پہلی سیڑھی ، دل کا دنیا سے بے نیاز ہونا ہے۔"
(زہراء جعفری)
جب کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، تبھی ہی تو سب ہورہا ہوتا ہے،
کیونکہ اللہ راستہ نکالتا نہیں بناتا ہے۔۔
رابرٹ موگابے زمبابوے کے صدر تھے انھوں نے اپنے پڑھے لکھے طبقے میں بڑھتی مایوسی پہ کہا تھا کہ ”آپ کیسے ایک بچے کو کہ سکتے ہیں کہ پڑھو گے تو اچھی زندگی ملے گی جب وہ بچہ آس پاس میں صرف چند ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگوں کو امیر دیکھتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو زندگی کے بارے میں صرف سب اچھا ہو گا کا سبق دینے کی بجائے مشکلات کا سامنا کرنا سکھایا جائے۔ سکلز دی جائیں جو ڈگری کی قید سے آزادی دیں کمانے کے لیے۔ یہ بتایا جائے کہ پیسے کیسے کمانے اور کیسے خرچ کرنے ہیں۔ دنیا میں کس شعبے میں کیا ڈیمانڈ ہے ویسے تیار کریں۔ جس شعبے میں جتنی کھپت ہے نوجوان کو پتہ ہونا چاہیے۔ ورنہ پڑھے لکھے غریبوں کے ایک ہجوم کا سامنا ہو گا جو اپنی ڈگری کے زعم میں کوئی دوسرا کام کرنا بے عزتی سمجھتا ہے۔ اسے یہ بتایا جائے آج کا معاشرہ ڈگری پہ نہیں آپ کی وضع قطع سے جانچتا ہے آپ کو۔ پڑھو لکھو لیکن یہ پڑھائی ایسی ہو کہ آپ کو معاشی، معاشرتی، فکری اور سماجی طور پر ایک آزاد انسان بنائے۔
(رابرٹ موگابے)